127

الیکشن ہونگے یا نہیں !!!

وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے نو اگست کو صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کو قومی اسمبلی معیاد مکمل ہونے سے ایک ماہ قبل تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجی گئی جس پر فوری عمل کرتے ہوئے صدر علوی نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکمنامہ جاری کر دیا
قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل قومی مفادات کونسل کے اس فیصلے کے تحت کہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق الیکشن ہونے چاہئیے ، ایک واضح عندئیہ ہے کہ شاید الیکشن نوے روز کے مقررہ وقت میںنہ ہوں اور آنیوالے ’نوے روز ‘بھی کہیں جنرل ضیاءالحق کے ’نوے روز ‘ کی طرح طوالت نہ پکڑ لیں

لاہور (احسن ظہیر سے )وزیر اعظم میاںشہباز شریف کی جانب سے نو اگست کو صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کو قومی اسمبلی معیاد مکمل ہونے سے ایک ماہ قبل تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجی گئی جس پر فوری عمل کرتے ہوئے صدر علوی نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکمنامہ جاری کر دیا ۔ یوں پاکستان میں مسلسل تیسری بار قومی اسمبلی اپنی معیاد پوری کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ اس سے قبل پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ اسمبلیاں معیاد پوری ہونے سے قبل کسی نہ کسی وجہ سے توڑ دی گئیں ۔ اسمبلیوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں بھی اسمبلیوں کے ساتھ ایوان اقتدارسے رخصت ہو گئیں ۔ ماضی کے حوالے سے گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں کچھ یوں کچھ مختلف ہوا ہے کہ گذشتہ ادوار سے قومی اسمبلیاں اپنی معیاد تو پوری کررہی ہے لیکن قومی اسمبلی کے گذشتہ تینوںادوار میں قومی اسمبلیوں میں کوئی بھی حکومت اپنی معیاد پور ی نہیں کر پائی ۔
حالیہ قومی اسمبلی جس کے تحلیل کرنے کا صدر عارف علوی نے نوٹیفکیشن جاری کیا ، میں عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن وہ اسمبلی کے دور میں اپنی حکومت کی معیاد کو پوری نہیں کر پائے اور میاں شہباز شریف کی صورت میں اپوزیشن اتحاد نے اپنے مخلوط حکومت قائم کر لی ۔
چونکہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی کو معیاد سے ایک ماہ قبل تحلیل کروایا گیا ہے لہٰذا آئین اور الیکشن قواعد کے مطابق نوے روز میں الیکشن ہونے چاہئیے ۔ پاکستانی عوام بالخصوص سیاسی حلقوں میں مسلسل یہ سوال زیر گردش ہے کہ آیا آئین کے مطابق نوے روز میں الیکشن ہونگے یا نہیں !!!
قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل قومی مفادات کونسل کے اس فیصلے کے تحت کہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق الیکشن ہونے چاہئیے ، ایک واضح عندئیہ ہے کہ شاید الیکشن نوے روز کے مقررہ وقت میںنہ ہوں اور آنیوالے ’نوے روز ‘بھی کہیں جنرل ضیاءالحق کے ’نوے روز ‘ کی طرح طوالت نہ پکڑ لیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں