اسلام آباد: امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکا کے ساتھ ہمسایوں کا بھی اہم کردار ہے، افغان مسئلے کا حل انتہائی پیچیدہ ہے تاہم امن کی کوششیں جاری ہیں۔
تفصیلات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے مہاجرین سے متعلق کانفرنس میں انٹر ایکٹو سیشن سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں زلمے خلیل زاد کاکہنا تھا کہ افغانستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔ افغان امن عمل میں پیشرفت کے لیے پر امید ہیں۔ باہمی برداشت، سوچ میں تبدیلی اور مفاہمت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں متحرک گروپوں کو ایک میز پر بٹھانا چیلنج ہے، افغانستان میں امن کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ افغان مسئلے کا حل انتہائی پیچیدہ ہے تاہم امن کی کوششیں جاری ہیں۔ افغانستان نے 40 سال تک بہت زیادہ مشکلات دیکھی ہیں، افغانستان میں آج بھی انتہائی خوفناک جنگ جاری ہے۔
نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے افغان فریقین میں گفتگو پر زور دے رہے ہیں۔ افغانستان میں بہت جنگیں ہو چکی ہیں، امریکا پائیدار امن چاہتا ہے۔ امریکا اور طالبان میں امن معاہدہ پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے سے پاکستان اور افغانستان میں تجارت کی راہ ہموار ہوگی۔ افغان تنازعہ پر نفرت اور الزام تراشی سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا، پاکستان اور افغانستان میں امن، اعتماد اور بہتر تعلقات کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ افغان امن معاہدے سے پاک افغان تعاون کی راہیں کھلیں گی، پاکستان اور افغانستان میں معاشی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات بڑھانا ہوں گے۔
زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکا کے ساتھ ہمسایوں کا بھی کردار ہے، دیکھنا ہے امن کو کس طرح دو طرفہ اور علاقائی سطح پر عملی شکل دی جائے۔
خیال رہے کہ مذکورہ کانفرنس میں کچھ دیر قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی فراخ دلی دہائیوں پر محیط ہے، پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ افغان مہاجرین کا دوسرا بڑا میزبان ملک ہے، پاکستان اور ایران افغان مہاجرین کو پناہ دینے والے بڑے ممالک ہیں۔ پاکستان کے افغان مہاجرین کو رجسٹر کرنے کے اقدام کو سراہتے ہیں۔
سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خدمات کے اعتراف میں عالمی تعاون محدود ہے، افغان مہاجرین کے لیے عالمی امداد بہت اہمیت رکھتی ہے۔ قرآن پاک نے مہاجرین کنونشن سے کہیں پہلے برابری کی بات کی تھی۔