114

امریکی انتخابات: امریکی مسلمان کسے ووٹ ڈالیں گے؟

نیویارک ( محسن ظہیر ) امریکی صدارتی الیکشن پانچ نومبر کو ہونے جا رہے ہیں۔ ان الیکشن میں امریکی عوام فیصلہ کریں گے کہ آئندہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہونگی یا کمالا ہیرس ہوں گی ۔ان الیکشن میں امریکہ میںموجود مسلم امریکن ووٹرز بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جو کہ بڑی تعداد میں امریکہ میں موجود ہیں تاہم مسلم امریکن ووٹرز کس صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ دیں گے ؟یہ وہ سوال ہے کہ جس پر سیاسی تجزئیہ کاروں کی نظریں مرکوز ہیں ۔مسلم امریکن جو کہ امریکہ کی کل آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہیں، نیویارک ، نیوجرسی ، پنسلوینیا، مشی گن، واشنگٹن ڈی سی ، ورجینا، الی نائے ، کیلی فورنیا ،ٹیکساس سمیت دیگر اہم اور بڑی امریکی ریاستوں میں مقیم ہیں ۔
امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کا دارو مداد امریکہ کی ان ریاستوں پر ہے کہ جہاں پر کانٹے دار مقابلہ ہے اور پنسلوینیا ، مشی گن ، ورجینیا ایسی ریاستوں ( جنہیں بیٹل گراو¿نڈ ریاستیں بھی کہا جاتا ہے) میں بڑی تعداد میں آبا د ہیں اور صدارتی و کانگریشنل الیکشن میں مسلم امریکن ووٹرز خاص اہمیت کے حامل ہوں گے ۔
تاہم یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا مسلم امریکن ووٹرز ، سو فیصد یا بڑی تعداد میں اپنا ووٹ ڈالیں گے تو اس سوال کے جواب کے لئے بھی الیکشن والے دن کا انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کتنے مسلم امریکن ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ۔ مسلم امریکن ووٹرز کا ووٹنگ ریکارڈ کو ئی قابل فخر نہیں ۔ الیکشن کے اہم ایشوز پر مسلم امریکن کمیونٹی اور ووٹرز بظاہر بڑی جذباتی نظر آتی ہے لیکن جب الیکشن والے دن ٹرن آو¿ٹ کی بات آتی ہے تو قول اور عمل میں واضح فرق نظر آتا ہے ۔
اس بات دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم امریکن ووٹرز کسے ووٹ ڈالتے ہیں اور کتنی تعداد میں ووٹ ڈالتے ہیں !!!
ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صدرجو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی ڈیموکریٹک انتظامیہ نے غزہ میں جاری ہولناک جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے، اس نے امریکی مسلمانوں کو مایوس کیا ہے کیونکہ جب بات غزہ کی آتی ہے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ ڈیموکریٹ انتظامیہ انہیں نظر انداز کررہی ہے۔ لیکن وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’مسلم بین‘ کو بھی نہیں بھولے ہیں اور انہیں نائن الیون کے بعد ری پبلکن حکومت کا اسلاموفوبک رویہ بھی یاد ہے۔
پولنگ میں سامنے آیا کہ تقریباً 29.4 فیصد مسلمان کاملا ہیرس کو ووٹ دیں گے۔ یہ ڈیموکریٹکس کے لیے خوش آئند خبر نہیں کیونکہ 2016ءاور 2020ءکے انتخابات میں 65 سے 80 فیصد امریکی مسلمانوں نے ہیلری کلنٹن اور جو بائیڈن کو ووٹ دیا تھا جبکہ 2008ءاور 2012ءکے انتخابات میں 80 سے 92 فیصد امریکی مسلمانوں نے باراک اوباما کو ووٹ دیا تھا۔ وہ امریکی مسلمان جو کاملا ہیرس کو مسترد کرچکے ہیں، شاید وہ ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی تیسرے امیدوار کو ووٹ دیں یا پھر وہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے ہی گریز کریں گے۔امریکی انتخابات میں کس کی جیت ہوتی ہے اس سے قطع نظر، امریکی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نظام میں اپنی سیاسی شرکت سے ہرگز دستبردار نہ ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں