ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آذاد
مودی حکومت کے خلاف اس کے اپنے ہی ملک کے ہندہ جرمنی کی سڑکوں پر نکل آئے۔
رپورٹ مہوش خان جرمنی
کچھ روز سے بھارت کے دارلحکومت دہلی میں مسلم مخالف فسادات اور شہریت بل کے خلاف ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف جرمنی کے شہر برلن ،فرینکفرٹ ہیمبرگ اور کولن Kölnکے علاوہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں بھی بیک وقت احتجاجی مظاہرے کئے گئے ۔
بھارتی شہر دہلی میں حالیہ دونوں میں زور پکڑنے والے فسادات جن میں لگ بھگ 42افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان مظالم کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔اور ان احتجاج میں شرکت کرنے والے افراد نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ان میں ہندو عیسائ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
برلن میں ہونے والے ایک احتجاج میں نہ صرف بھارتی شہریوں نے بلکہ یورپ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
احتجاج میں شریک افراد نے نہ صرف ان حالیہ واقعات پر شدید الفاظ میں مذمت کی بلکہ مرنے والوں سے اظہار تعزیت بھی کیا۔
مقررین ان فسادات میں مارے جانے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے نہایت آبدیدہ تھے جن کو حالیہ دنوں میں بے دردی ہے مارا گیا۔
مقررین میں بھارت سے تعلق رکھنے والی ہندو طالبہ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف یہ دنگے فسادات آج کا المیہ نہیں بلکہ بابری مسجد کا ڈھایا جانا یا گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہمیں یاد رکھنا چاہیئے۔
اور میں دل کی گہرائیوں سے بھارت کے ان حالات پر شرمندہ ہوں۔
ان مرنے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہمارے ہندو برادری کے افراد بھی شامل ہیں۔
آج کے اس حتجاج کو آرگنائز کرنے والے طالب علموں میں سے ایک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
ہم یہاں بھارت و دنیا بھر سے مختلف قومیتوں اور مذاہب کے افراد جمع ہوئے ہیں ۔اور جو کچھ اس وقت بھارت میں ہورہا ہے وہ سراسر انسانی حقوق کے خلاف ہے اور ہمارا آئین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔
اس کے علاوہ مقامی افراد نے احتجاج میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ دنوں جرمنی میں اسلام و فوبیا کا ذکر کرتے ہوئے ان واقعات کی سختی سے مذمت کی۔
احتجاج میں شامل افراد نے اپنے ہاتھوں میں مختلف طرح کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور مودی حکومت کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگا رہے تھے۔