462

جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس

اسلام آباد : چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کیس میں سیکرٹری وزارت قانون کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے، سرپرست بھی بچوں پرتشددکی اجازت نہیں دے سکتا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے زندگی ٹرسٹ کے صدر معروف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری عدالت میں پیش ہوئیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدالت نےوفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کوطلب نہیں کیا ، ڈاکٹر شیریں مزاری کا طلب  کیے بغیر عدالت آنا خوش آئند ہے ، پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی کا کیا بنا، وفاقی وزیر کا کیس میں دلچسپی لینا اچھی بات ہے، قرآن پاک میں بچوں کےحقوق کے بارے میں احکامات موجودہیں۔

شیریں مزاری نے بتایا پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائےایجوکیشن نے بل پاس کیاہوا ہے، جس پر عدالت نے کہا بچے کو کلاس میں ایموشنلی تنگ کیا جائے تو بچے کی شخصیت پربھی اثر پڑتا ہے۔

وکیل شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کوٹریٹیز اورکنونشن پر عمل کرنے کے احکامات صادرفرمائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کچھ صوبوں میں قوانین پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سندھ اور کےپی میں اسکولوں میں بچوں کیخلاف تشددکا قانون نافذ العمل ہے تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وفاقی حکومت میں پھر کیا مسئلہ ہے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کابینہ نے بل کو منظور کر لیا، وزرات قانون نےکہابل انسانی حقوق نہیں بلکہ وزارت داخلہ کااختیار ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا کابینہ نے بل کی مشروط منظوری دی تھی، قرآن میں ہے انسان اللہ کی سب سے بہتر مخلوق ہے، آرٹیکل 14 کےمطابق بچوں پرتشدد اور جذبات سے نہیں کھیلا جا سکتا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو تو زیادہ عزت دینی چاہئے، کلاس میں بچوں کے جذبات سے کھیلا جائے تو شخصیت متاثر ہوتی ہے، جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے، سرپرست بھی بچوں پرتشددکی اجازت نہیں دے سکتا، جس پر گلوکار شہزاد رائےنے کہا سیکشن 89 میں لکھا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکشن 89 کی غلط تشریح کی جاتی ہے، اگر کوئی قانون بھی نہیں تو بھی بچوں کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا، بچوں کے جذبات کیساتھ نہیں کھیلا جا سکتا۔

وزارت تعلیم کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا وزارت تعلیم نےبچوں کو جسمانی سزا پرسرکلر جاری کر دیا ہے، چیف جسٹس نے وفاقی وزیر شیریں مزاری سے استفسار کیاعدالت کو کیا کرنا چاہئے، جن بچوں کی تشدد سےاموات ہوئی ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا؟۔

شیریں مزاری نے بتایا عدالت اس حوالے سے فیصلہ دے تومستقبل میں تحفظ کیا جا سکتا ہے، ہمارے پاس شکایات اوربچوں کے تشدد کےکیس آ رہےہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بچوں پرتشدد کےجو کیس ہوئے، آئندہ سماعت بتائیں، سیکشن 89 میں اصلاح کےلیےتشدد کی تشریح پر معاونت کریں، بچوں کےساتھ جنسی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سیکرٹری وزارت قانون افسرعدالتی معاونت کے لئے مقرر کر دے، آئندہ سماعت میں کیس کا فیصلہ کر دوں گا، پاکستان میں بچوں کی حالت زار قابل رحم ہے، وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دی، اس کو پارلیمنٹ میں بھیجا جا سکتا ہے۔

شیری مزاری کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کوبل پارلیمنٹ میں بھیجنے کی ہدایت دی جائے، تو چیف جسٹس نے کہا ہم وزارت قانون سے کسی کو بلا لیتے ہیں، آپ پر کوئی بار نہیں، جو بل منظور ہوا اسے پارلیمنٹ بھیجا جا سکتا ہے۔

گلوکار شہزاد رائے نے کہا فیصلے میں ہدایت کر دیں تو بل منظورہو جائے گا ورنہ رکا رہے گا، شیری مزاری نے بتایا 19 مارچ 2019 کو کابینہ نے بل منظور کیا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری قانون بتائیں بل کوپالیمنٹ میں کیوں پیش نہیں کیا جاسکتا، سول سوسائٹی میں کسی کی ہمت نہیں بچے کو غلط نگاہ سے دیکھے، آرٹیکل 14 کواہمیت دیں تو بنیادی حقوق اس میں آتے ہیں، وزارت قانون سے پوچھ لیں گےبل کیوں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

شیریں مزاری نے بتایا پارلیمنٹ کا سیشن اگلے ہفتے ہونا ہے اور استدعا کی سیکرٹری کوتھوڑا جلدی بلا لیں توبل آئندہ سیشن میں پیش ہوجائے گا، جس کے بعد عدالت نے سیکرٹری وزارت قانون کو 12 مارچ کو طلب کرلیا اور سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں