اسلام آباد: سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزا سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
سندھ ہائیکورٹ بار نے خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دینےکا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
سندھ ہائی کورٹ بار نے اپنی درخواست میں پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ بحال کرنے کی استدعا کی ہے اور مؤقف اپنایا کہ لاہور ہائی کورٹ کو خصوصی عدالت کےخلاف درخواست سننے کا اختیار نہیں تھا، خصوصی عدالت کی تشکیل مروجہ قانون کے مطابق ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب حکومت نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی
مشرف سنگین غداری کیس کیا ہے اور اب تک اس میں کیا کچھ ہوا؟
درخواست میں مزید کہا گیاہےکہ لاہور ہائی کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا، ہائی کورٹ نے استغاثہ کے شواہد کو کوئی اہمیت نہیں دی،پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تسلیم شدہ حقائق پر تھا۔
پس منظر
یاد رہے کہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔
بینچ کے دو اراکین نے فیصلے کی حمایت جب کہ ایک رکن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پرویز مشرف کو بری کیا تھا۔
خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو بھی قانون کےکٹہرے میں لانے کا حکم دیا اور فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے جسٹس وقار سیٹھ نے پیرا 66 میں لکھا ہے کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہوجائیں تو لاش کو ڈی چوک پر لاکر 3 دن تک لٹکایا جائے۔
13 جنوری کو لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی قراردی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرٹیکل 6 کےتحت ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جاسکتا، ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل غیر قانونی ہے، خصوصی عدالت کی تشکیل کے وقت آئینی و قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔