وفاق میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفد نے حکومت میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ گورننس اور ماضی کے ماڈلز پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکے، طے کرنا ہوگا کہ رولز آف گورننس کیا ہیں؟
نواز شریف کی واپسی کیلیے حکومتی خط کی حیثیت ردی سے زیادہ نہیں: شاہد خاقان
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ن لیگ کا ایک ہی بیانیہ ہے کہ ملک آئین و قانون کے مطابق چلنا چاہیے اور پاکستان ایک حقیقی جمہوریت میں ہی فروغ پاسکتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شہباز شریف کی ہدایت پر کراچی آئے ہیں، 32 سال سے ہم جمہوریت کے لیے کوشش کررہے ہیں،ایم کیو ایم سے اچھے ماحول میں معاملات پر گفتگو ہوئی، ہم اقتدار اور ایک الیکشن کی بات نہیں کرتے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور طے کریں کس طرح مسائل حل کرسکتے ہیں، سیاسی طور پر میں چاہوں گا کہ عمران خان کی حکومت پانچ سال پورے کرے۔
خالد مقبول نے ایک خاتون کی وزارت میں مداخلت پر استعفیٰ دیا
انہوں نے کہا کہ اس حکومت کا ایک ایک لمحہ پاکستان کے عوام پر بھاری ہے، سیاست میں شکوے شکایت ہوتی ہے، جمہوریت جاری رہے تو مسائل حل ہوں گے۔
شاہد خاقان نے کہا کہ جتنا ہم نے صوبوں کو مالی وانتظامی طورپر اختیار دیا کسی نے نہیں دیا، ہم مسائل حل کرنے کی بات کررہے ہیں، مسلم لیگ ن کا بیانیہ ایک ہی ہے، ہم چاہتے ہیں تمام صوبوں میں ایک جیسا مقامی حکومت کا نظام ہو، ہم کسی مائنس ون مائنس ٹو پر یقین نہیں رکھتے، 2013 میں کراچی کے جو حالات تھے سب جانتے ہیں۔
آئین مقدم ضرور ہے لیکن قابل عمل بھی ہونا چاہیے، خالد مقبول
اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آئین مقدم ضرور ہے لیکن قابل عمل بھی ہونا چاہیے، آئین میں عوام کو بااختیار بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت حکومتی جماعت کے پاس آئی ہے، ہم سب چاہتے ہیں کہ پاکستان کے خواب کی تعبیر ہو، جمہوریت منزل تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے، ہم جمہوریت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
وزیراعظم سے ملاقات کے بعد خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے استعفیٰ واپس لے لیا
نہ حکومت گرانے جارہے ہیں نہ ن لیگ نے ایسی کوئی بات کی ہے، خالد مقبول
حکومت گرانے سے متعلق صحافی کے سوال پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں حکومت کے اتحادی کے ساتھ کھڑا ہوں جواب دینا ذرا مشکل ہے، اس حکومت کا ایک ایک لمحہ پاکستان پر بھاری ہے، 31 مئی 2018 پر جہاں معیشت تھی اس پر واپس لانا مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یقین نہیں آتا کوئی حکومت یا شخص ڈیڑھ سال میں معیشت کو اتنا نقصان پہنچاسکتا ہے، ہم کوئی اتحادی ڈھونڈنے نہیں آئے اپنے خیالات ایم کیو ایم کے سامنے رکھے ہیں۔
اس موقع پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ نہ حکومت گرانے جارہے ہیں نہ ہی ن لیگ نے ہم سے ایسی کوئی بات کی ہے، نہ ن لیگ کے ساتھ حکومت بنانے جارہے ہیں نہ حکومت گرانے کا کوئی ارادہ ہے، ن لیگ سیاسی جماعت ہے یہ ملک کے مخالف نہیں ہے حکومت کے مخالف ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جس کے بعد خالد مقبول صدیقی کی وزارت سے استعفیٰ واپس لینے کی خبر سامنے آئی تھی تاہم بعد میں خود خالد مقبول صدیقی نے تردید کردی تھی۔
واضح رہے کہ 12 جنوری 2020 کو ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے وعدے پورے نہ ہونے کا الزام لگاکر کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد حکومتی وفد کئی بار ایم کیو ایم کے وفد سے ملا اور تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی اور ہر ملاقات کے بعد یہ خبریں سامنے آتی رہیں کہ خالد مقبول صدیقی نے استعفیٰ واپس لے لیا ہے تاہم خالد مقبول کی جانب سے اب تک اس کی تردید کی جاتی رہی ہے۔