اسلام آباد: مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن خود آئی ایم ایف کے پاس گئی اور اب ہم پر تنقید کر رہی ہے، ماضی کی حکومتوں نے ڈالر کو مصنوعی سستا رکھ کر عوام کو ٹوتھ پیسٹ تک امپورٹڈ استعمال کروایا۔ مجموعی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بڑے حقائق ہیں جن کا سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں، پاکستان کے حقائق کے بارےمیں سمجھ ہونی چاہیئے۔ استحکام کی بات کرتے ہیں تو اس چیز کو بھی سامنے رکھنا چاہیئے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن صبر کے ساتھ 2023 کے انتخابات کا انتظار کرے، معیشت کے اثرات براہ راست لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہونا ہے تو اپنے لوگوں پر دھیان دینا ہوگا۔ پاکستان کبھی بھی ٹیکس کلیکشن میں اچھے انداز میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے دور بھی آئے جب ترقی کی رفتار میں کچھ تیزی آئی، 1960 کی دہائی میں جو ترقی کی رفتار بڑھی وہ 4 سال میں ختم ہوگئی، دیکھنا ہوگا ایسے کیا مسائل ہیں جو ترقی کی رفتار کے اضافے میں رکاوٹ ہیں، ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے عوامی مسائل پر توجہ دینا ہوگی۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں تمام مسائل کی جڑ 30 ٹریلین کا قرض ہے، حکومت پر تنقید کی جارہی ہے کہ قرض میں اضافہ کیا۔ آنے والے 2 سال میں 5 ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کرنا تھا۔ حکومت آئی تو جاری کھاتوں کا خسارہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ جاری کھاتوں کا خسارہ بتاتا ہے کہ کیا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 95 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ اور سالانہ خسارہ 20 ارب کا بوجھ تھا، ماضی کے دور حکومت میں اوور ویلیو ریٹ پر فکس رکھا گیا، کرنسی کی ویلیو کسی بادشاہت کا حکم نہیں جو رک جائے گی۔ کرنسی کی قدر کو روکنے کے لیے ڈالرز جھونکنے پڑتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر آدھے ہوگئے۔
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بحران یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں، ہم نے قرضہ بھی 95 ارب ڈالرز میں ہی لیا تھا۔ برآمدات ہی ڈالرز کمانے کا واحد ذریعہ ہے اور اس میں اضافے کی رفتار زیرو تھی، ڈالر سستا ہونے سے لوگ درآمدات کی طرف مائل ہوئے۔ ڈالر مصنوعی سستا رکھ کر ہر لگژری آئٹم درآمد کیا گیا۔ ڈالر مصنوعی سستا رکھنے سے ہمارے برآمد کنندگان متاثر ہوئے۔ ڈالرسستا رکھ کر عوام کو ٹوتھ پیسٹ تک امپورٹڈ استعمال کروایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ توانائی سیکٹر پاکستان کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے، ہم توانائی سیکٹر میں گھمبیر مسائل کے حل میں ناکام رہے ہیں۔ یہ نمبرز کا کھیل نہیں ان کا تعلق انسانوں کی زندگیوں سے ہے۔ تیل کی مؤخر ادائیگی کی سہولت دوست ممالک سعودی عرب سے ملی۔ آئی ایم ایف کے پاس کوئی خوشی سے نہیں جاتا حالات مجبور کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے آسان شرائط پر 6 ارب ڈالر حاصل کیے۔ آئی ایم ایف کی وجہ سے دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھا کہ پاکستان معاشی بہتری کی طرف جا رہا ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فوج کے بجٹ کو فریز کرنا بڑا فیصلہ تھا، پاک فوج کی قیادت نے حکومت کی مدد کی۔ وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے بجٹ میں کمی کی گئی، کابینہ کی تنخواہوں میں کمی کی گئی، اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہم نے سخت بجٹ بنایا۔ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے صفر قرضہ لیا، ایکسپورٹرز اور غریب عوام کے لیے اقدامات کیے، سوشل سیفٹی نیٹ کے بجٹ کو 192 ارب کیا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ایکسپورٹرز پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، ایکسپورٹرز کو بجلی اور گیس پر سبسڈی دی جائے گی، سبسڈی کا مطلب ہے کہ حکومت ایکسپورٹرز کے بلز میں حصہ ڈالے گی، ایک ہزار 660 خام مال پر ٹیکس میں چھوٹ دی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے 7 ماہ میں برآمدات میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا، ہمارے ٹیکسٹائل اور دیگر ایکسپورٹرز نے کامیابی حاصل کی ہے۔ پہلے سال میں ہم جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب سے 13 ارب ڈالر پر لے آئے، اس سال نان ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 11 سو ارب روپے ہے، ہم اس سال نان ٹیکس ریونیو سے 15 سو ارب روپے حاصل کرلیں گے۔ مجموعی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ حکومت نے مزید کوئی قرضہ نہیں لیا، قرض میں اضافہ ڈالر مہنگا ہونے سے ہوا۔